Unfinished relationships- the complete truth in Urdu Short Stories by Shay Amin books and stories PDF | ادھورے رشتے، مکمل سچ

Featured Books
  • रुह... - भाग 4

    ४.पायल और अमिता किसी छोटी-सी बात पर बहस कर ही रही थीं कि तभी...

  • एक रोटी ऐसी भी

    रोटी के लिए इंसान क्या क्या नहीँ करता है मेहनत मजदूरी शिक्षा...

  • Kurbaan Hua - Chapter 35

    संजना ने तुरंत दरवाजा बंद कर लिया और हर्षवर्धन की ओर देखने ल...

  • मेरी जान

    ### **मेरी जान**शाम के 6 बजे थे। दिल्ली की गलियों में ठंडी ह...

  • हमराज - 10

    फिर बादल भी अपने कमरे के अंदर ही रूककर उस शख्स की अगली हरकत...

Categories
Share

ادھورے رشتے، مکمل سچ

 

.ادھورے رشتے، مکمل سچ

اوصاف، ایک متمول بزنس مین ارمان کا اکلوتا بیٹا، حال ہی میں ایم بی اے مکمل کر چکا تھا۔ وہ نہ صرف ذہین تھا بلکہ اپنے والد کے خوابوں کو نئی بلندیوں تک لے جانے کا جذبہ بھی رکھتا تھا۔ باپ بیٹے کا رشتہ نہایت قریبی تھا؛ وہ ہر شام کا کھانا ساتھ کھاتے، چاہے مصروفیت جتنی بھی ہو۔

ایک شام، جب موسم کچھ اداس تھا اور کمرے میں مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی، اوصاف نے سوشل میڈیا پر ایک اجنبی چہرہ دیکھا۔ ایک تصویر تھی، مگر اس تصویر کی آنکھوں میں ایک عجیب سی گہرائی، ایک ان کہی سی کہانی چھپی ہوئی تھی۔ نام تھا "زویا"—اسلام آباد کی ایک حالیہ ایم بی بی ایس گریجویٹ۔

اوصاف اس چہرے کو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ وہ نہ کوئی ماڈل تھی، نہ ہی سوشل میڈیا کی ستارہ—مگر اس کے انداز میں شائستگی اور آنکھوں میں ایسا سکون تھا جو روح کو چھو جائے۔ پروفائل پر دوستوں کی مختصر فہرست اور سادگی نے اوصاف کو الجھن میں ڈال دیا۔ دل کہتا تھا ریکوئسٹ بھیج دے، دماغ وسوسوں میں گھرا ہوا تھا: "اگر انکار ہو گیا تو؟"

بالآخر دل جیت گیا۔ اوصاف نے فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دی اور بے چینی سے جواب کا منتظر رہا۔

اسی لمحے دروازہ کھٹکا۔ بچپن سے وابستہ خان بابا کی مانوس آواز آئی، "صاحبزادے، کھانا لگ گیا ہے۔ صاحب آپ کا انتظار فرما رہے ہیں۔"

"بس آیا، خان بابا!" اوصاف نے مسکرا کر جواب دیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ خان بابا صرف ملازم نہیں، بلکہ اس خاندان کے ستونوں میں سے ایک تھے۔

کھانے کی میز پر ارمان موجود تھے۔ سلام داغنے کے بعد اوصاف اپنی نشست پر بیٹھ گیا، مگر اس کا ذہن زویا کی تصویر میں گم تھا۔ ارمان نے محسوس کیا کہ بیٹا جسمانی طور پر تو ساتھ ہے، مگر روح کہیں اور ہے۔ انہوں نے خاموشی اختیار کی اور کھانے کے بعد کمرے میں چلے گئے۔

اوصاف تیزی سے اپنے کمرے میں آیا۔ موبائل کھولا اور اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک دوڑ گئی—فرینڈ ریکوئسٹ قبول ہو چکی تھی۔ ایک مختصر پیغام بھی جھلک رہا تھا: "سلام"

اوصاف نے بے ساختہ جواب دیا اور تعارف بھیج دیا۔ کچھ ہی لمحوں بعد زویا کا جواب بھی آ گیا، اور پھر گفتگو کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو رکا نہیں۔ دن، ہفتے بیتنے لگے، اور باتیں چیٹ سے فون کالز، پھر ویڈیو کالز تک پہنچ گئیں۔ اوصاف حیران رہ گیا کہ زویا جیسے اس کا ہی عکس ہو۔ سوچ، مزاج، پسند نا پسند—سب ایک جیسے۔

کچھ ہفتے بعد اوصاف نے زویا کو بتایا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ ایک بزنس کانفرنس کے لیے اسلام آباد آ رہا ہے۔ اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا، "کیا ہم کہیں مل سکتے ہیں؟"

زویا لمحہ بھر کو خاموش رہی، پھر کہا، "امی ساتھ ہوں گی، تب ٹھیک ہے؟"

اوصاف نے مسکرا کر کہا، "بلکل، میں بھی چاہتا ہوں کہ میں ان سے مل لوں۔"

جب زویا نے اپنی ماں، آفرین، کو یہ بتایا تو ان کے چہرے پر کراچی کا نام سن کر ایک لمحے کو حیرانی ابھری۔ مگر انہوں نے خود کو سنبھالا اور کہا، "ٹھیک ہے بیٹا، چلتے ہیں۔"

کانفرنس کے اختتام پر اوصاف نے اپنے والد، ارمان، کو آہستگی سے اطلاع دی،

"پاپا، آج رات ایک خاص مہمان ہمارے ساتھ کھانے پر آ رہے ہیں، آپ تیار رہیں گے؟"

ارمان نے اپنی عینک کے پیچھے سے بیٹے کی آنکھوں میں ایک چمک محسوس کی—وہ چمک جو کسی دل کے قریب آنے والے کی خبر دیتی ہے۔ وہ مسکرا دیے اور کہا،

"ضرور، بیٹا۔"

یہ پہلا موقع تھا جب اوصاف نے کسی لڑکی کو باقاعدہ مدعو کیا تھا، اور وہ بھی اپنے والد کے سامنے۔ اس رات، ہوٹل کے پرآسائش ریسٹورنٹ کی نرم روشنیوں میں باپ بیٹا ایک خوبصورتی سے سجے میز پر بیٹھے، مہمانوں کے منتظر تھے۔ ماحول میں ایک ہلکی سی نرمی، اور اوصاف کے چہرے پر بےتابی کا عکس نمایاں تھا۔

اچانک اوصاف کے فون پر ایک میسج نمودار ہوا:

"ہم پہنچنے والے ہیں۔"

اس نے بے اختیار مسکرا کر کہا،

"پاپا، میں انہیں لینے جا رہا ہوں۔"

جیسے ہی وہ ہوٹل کی روشنیوں سے نکل کر داخلی دروازے پر پہنچا، ایک سیاہ مرسڈیز وقار کے ساتھ آہستہ آہستہ رکی۔ گاڑی کے دروازے کھلا، اور زویا ایک سفید دوپٹے میں لپٹی، سادگی اور وقار کے سنگم جیسی، باہر نکلی۔

"السلام علیکم،" زویا نے دھیمی، متین آواز میں کہا۔

"وعلیکم السلام..." اوصاف کے لبوں سے بےساختہ نکلا، اور فوراً اپنی مسکراہٹ کے ساتھ بولا،

"تم… تم تو تصویروں سے کہیں زیادہ خوبصورت ہو۔"

زویا کے رخسار ہلکا سا گلنار ہوئے، مگر وہ کچھ بولنے ہی والی تھی کہ گاڑی کا دوسرا دروازہ کھلا… اور اس کی ماں، آفرین، ایک شاہانہ وقار اور سنجیدہ متانت کے ساتھ باہر آئیں۔

"یہ میری ماں ہیں،" زویا نے جلدی سے تعارف کروایا۔

اوصاف نے ایک لمحہ کو اپنی نظریں نیچی کیں، جیسے کسی خاص ادب کے احساس میں ڈوبا ہو، اور آہستہ سے کہا،

"السلام علیکم آنٹی، خوش آمدید۔"

اس کے لہجے میں وہی تربیت، وہی عزت کا عکس تھا جو ارمان نے برسوں میں اسے سکھایا تھا۔

لیکن جیسے ہی آفرین کی نظریں اوصاف کے چہرے پر پڑیں… وقت جیسے ایک پل کے لیے تھم سا گیا۔

آنکھیں، جنہیں کچھ بھلایا جا چکا تھا، اچانک کسی بھولی ہوئی پہچان کی دھند میں الجھ گئیں۔

کیا یہ وہی چہرہ ہے…؟ نہیں، مگر… یہ چہرہ مجھے کسی کی یاد دلا رہا ہے…

انہوں نے خود کو سنبھالا، چہرے پر نرمی لاتے ہوئے دعا دی،

"خوش رہو، بیٹا۔"

وہ تینوں ایک ساتھ ہوٹل کے مرکزی دروازے سے داخل ہوئے۔ ہوٹل کی چھت سے لٹکتے فانوس، مہکتے گلابوں کی خوشبو اور آہستہ بجتے ساز جیسے اس لمحے کے لیے تیار تھے۔ اوصاف کی نظریں اب بھی زمین پر جمی تھیں، جیسے ادب، حیا اور جذبات کا ایک طوفان اس کے اندر خاموشی سے چل رہا ہو۔

چلتے چلتے وہ ریستوران کے حصے میں داخل ہوئے۔ اوصاف نے میز کی طرف اشارہ کیا، جہاں ایک شخص بیٹھا تھا—پیٹھ ان کی طرف، آنکھیں شاید کسی اور سوچ میں گم۔

"پاپا، مہمان آ گئے ہیں،" اوصاف نے دھیمی آواز میں اطلاع دی اور تیز قدموں سے اُن کی طرف بڑھا۔

ارمان نے جیسے ہی یہ سنا، اپنی نشست سے اٹھے، اور جیسے ہی اُن کی نظریں سامنے کھڑی خاتون پر پڑیں، وقت ایک لمحے کے لیے رک سا گیا۔

ارمان کی سانس جیسے گلے میں اٹک گئی۔ آفرین نے بھی سلام کہنے کے لیے لب کھولے، مگر آواز نکلنے سے پہلے ہی دم سادھ گئی۔

اوصاف نے حیرانی سے اپنے والد کی حالت دیکھی۔ ان کا چہرہ یکایک سفید پڑ چکا تھا، جیسے جسم سے سارا خون کسی نے نچوڑ لیا ہو۔ لب کپکپا رہے تھے اور آنکھیں ساکت۔

"پاپا… آپ ٹھیک ہیں؟" اوصاف نے پریشان ہو کر پوچھا، مگر ارمان کی نظریں آفرین کے چہرے سے ہٹنے کا نام نہ لے رہی تھیں۔

اوصاف نے زویا کی ماں کی طرف دیکھا، اور اس کی حیرانی بھی عروج پر جا پہنچی۔

زویا ابھی کچھ سمجھ ہی نہیں پائی تھی کہ اُس کی ماں، آفرین، نے اچانک اس کی کلائی مضبوطی سے تھامی اور بغیر کچھ کہے تیزی سے واپس مڑ گئیں۔ ان کا چہرہ سخت مگر آنکھیں نم تھیں۔ قدموں میں بےچینی تھی اور آنکھوں میں درد چھپا ہوا تھا۔

"ڈرائیور کو کال کرو، گاڑی باہر منگواؤ!" آفرین نے کانپتی آواز  اپنی بیٹی سے کہا۔

زویا حیران و پریشان اُن کے ساتھ چل رہی تھی، بار بار پیچھے مُڑ کر دیکھتی، جیسے اس کے دل میں کچھ چھوٹ رہا ہو۔ لیکن ماں کے چہرے پر ایسا جمود تھا کہ اس نے خاموشی کو بہتر سمجھا۔

دوسری طرف، اوصاف نے بڑھ کر اپنے والد کے کندھے پر ہاتھ رکھا، "پاپا... آپ ٹھیک ہیں؟"

مگر ارمان نے آنکھیں جھکا لیں، ایک لمحے کو لب کانپے، پھر خاموشی سے اپنے آنسو چھپاتے ہوئے تیزی سے لفٹ کی طرف بڑھ گئے۔ ان کا وجود تھکا ہوا، بوجھل اور خالی سا لگ رہا تھا۔

گاڑی میں بیٹھ کر، آفرین نے کھڑکی کی طرف منہ کر لیا۔ دوپٹے سے بار بار آنسو پونچھنے کی کوشش کر رہی تھیں، مگر آنکھیں کسی پرانے زخم کی طرح برس رہی تھیں۔ زویا چپ چاپ اُن کی طرف دیکھ رہی تھی۔ بہت کچھ پوچھنا تھا، مگر ڈرائیور کی موجودگی نے سوال لبوں پر روک دیے۔ اُس نے آہستہ سے ماں کا ہاتھ تھاما۔

ماں نے اُس کی طرف نہیں دیکھا، مگر ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا— جیسے برسوں کی تنہائی میں کوئی سہارا مل گیا ہو۔

گھر پہنچتے ہی آفرین تیزی سے اندر داخل ہوئیں، زویا کو ساتھ لیے سیدھی اپنے بیڈ روم میں گئیں۔ دروازہ بند کیا اور بغیر کچھ کہے اُسے اپنے ساتھ بستر پر بٹھا دیا۔

"تم اوصاف کو کیسے جانتی ہو؟ اور تم دونوں کے درمیان کیا ہے؟"

آفرین کی آواز سخت تھی، مگر اس کے پیچھے ایک عجیب سی گھبراہٹ چھپی تھی۔

"آپ... آپ اوصاف کا نام کیسے جانتی ہیں؟ میں نے تو کبھی آپ سے اس کا ذکر نہیں کیا!" زویا کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔

"میں جو پوچھ رہی ہوں اُس کا جواب دو!" آفرین کا لہجہ اس بار قابو سے باہر ہو چکا تھا۔

زویا روہانسی ہو گئی، "امی، ہم چند ہفتوں سے ایک دوسرے سے آن لائن بات کر رہے ہیں۔ وہ اچھا انسان ہے۔ آج ہماری پہلی ملاقات تھی۔ اور ہاں... ہم صرف دوست ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔"

آفرین ے گہرا سانس لیا، آنکھیں آسمان کی جانب اٹھائیں، اور دھیمی آواز میں کہا

یا اللہ! آپ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ نے مقدس رشتے کی پاکیزگی کو برقرار رکھا۔

"امی!" زویا کی آواز لرزنے لگی۔ "آخر بات کیا ہے؟ اوصاف  کو  آپ کیسے جانتے ہو؟"

آفرین کی آنکھوں میں اب نمی نہیں، بلکہ برسوں پرانا درد تھا۔ اُس نے اپنی بیٹی کے چہرے کو ہاتھوں میں تھام کر کہا

آفرین کی آواز آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ وہ الفاظ بمشکل ادا کر پا رہی تھیں، مگر ہر حرف ایک زلزلے کی مانند زویا کے دل پر گرتا رہا:

"وہ... میرا جگر کا ٹکڑا اور  تمہارا بھائی ہے، زویا... تمہارا سگا بھائی! اور جو ریسٹورنٹ میں  بیٹھا تھا... وہ تمہارے پاپا ہیں!"

یہ کہہ کر آفرین جیسے خود پر قابو کھو بیٹھیں۔ وہ دونوں ہاتھ جوڑ کہا

"مجھے معاف کر دو... میں نے تمہیں تمہارے اپنے خون سے دور رکھا، تمہارے باپ سے، تمہارے بھائی سے... صرف، اپنی ضد کی وجہ سے!"

زویا ساکت بیٹھی رہی، جیسے وقت تھم گیا ہو۔ کمرے کی خاموشی میں صرف ماں کے رونے کی آواز گونج رہی تھی۔

پھر ایک لمحے بعد، زویا کے چہرے پر آنسو پھسلتے ہوئے گالوں سے ہوتے ہوئے مسکراہٹ میں ڈھلنے لگے۔ وہ تیزی سے جھکی، اور آفرین کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ ماں کا سر اپنی گود میں رکھ کر

آفرین نے بیٹی کے بازوؤں میں سر چھپاتے ہوئے سسکیاں لیں، مگر اب ان کی سسکیوں میں ہلکا سا سکون تھا۔

زویا کی آنکھوں میں اب نمی کے ساتھ چمک تھی—خوشی کی، حیرت کی، اور امید کی۔

باہر رات گہری ہو رہی تھی، لیکن زویا کے دل میں ایک نئی صبح طلوع ہو چکی تھی—ایک نئی پہچان، ایک نیا رشتہ، اور برسوں بعد جُڑنے والی ایک بکھری ہوئی کہانی کی تکمیل۔